Wednesday, August 26, 2015

نئے پل سے بدین اسٹاپ تک کیا final


The writer did not improve the piece despite continuous reminders
نیا پل سے بدین اسٹاپ تک کا بدلتا روپ


حمیرا عبدالستار



وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ تاریخ جہاں ہمیں شہرکے شہر آباد ہونے کی داستاں سناتی ہے تو وہیں ان کے غرق ہونے کا بھی پتہ دیتی ہے۔ صدیوں سے یہی سلسلہ چلا آرہا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو آج "موئن جو دڑو ''آباد ہوتا۔



حیدرآباد جسے کبھی نیرون کوٹ کہا جاتا تھا وہ آج ہواؤں کے شہر کے طور پے پہچانا جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر نے بہت سی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ایسے علاقے جو کبھی جنگل کی تصویر پیش کرتے تھے ،وہ آج شہر کے بازاروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہم جس علاقے کی بات کر رہے ہیں، وہ نیا پل سے بدین اسٹاپ تک کے علاقے ہیں جہاں وقت کے ساتھ بہت سی اہم تبدیلیاں رونماں ہوئی ہیں۔



بیس برس میں اس علاقے میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ سندھ ا خاص اہمیت کا حامل ہے ، جہاں ہر رنگ و نسل کے لوگ آکر آباد ہوئے۔ بنگال سے آئے ہوئے لوگوں نے کراچی کو اپنا ٹھکانا بنا یاتواسی طرح کو ئٹہ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے نیا پل کو اپنا ٹھکانابنا لینے میں عافیت جانی ۔ یہ تب کی بات ہے جب حیدرآباد کی ٹیکسٹائل صنعت عروج پر تھی۔ یہ علاقہ ان کاخانوں کے مزدوروں کی رہائشی بستیوں کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقہ کاروباری مرکز بن گیا۔ 



نیا پل وفاقی وزیر مواصلات محمد خان جونیجو نے ایوب خان کے زمانے میں تعمیر کیا تھا۔ اسکے دائیں بائیں دوکانوں کی لمبی قطاریں اس پل کی خوبصورتی کا ایک عنصر ہیں۔ ان جو توں کی دوکانوں کے باہر آویزاں جوتے مختلف ثقافتوں کی رونمائی کرتے ہیں ،یہ دوکانیں پٹھانوں کی آباد کردہ ہیں ۔یہاں انڈس گلاس ورکس کے ساتھ پرانی بستی پنہور گوٹھ اور ماچھی گوٹھ بھی تھے۔



اس علاقے کو جوتامارکیٹ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔پہلے یہاں چند دوکانیں تھیں لیکن 20 برس میں آبادی بڑھتی گئی جس کے ساتھ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا،جن لوگوں نے یہ علاقہ آباد کیا وہ آج مٹی اوڑھ کر سوچکے ہیں۔ نئی نسل تاریخ سے ناواقف ہے جس کے باعث یہ علاقہ اپنی تاریخ کو فراموش کرتا جارہا ہے۔



تھوڑا آگے بڑھیں تو ریل کی چکمتی پٹریاں نظر آتی ہیں، جس کے کچھ فاصلے پر ریلوے اسٹیشن واقع ہے جہاں سے ہزاروں لوگ اپنی منزل کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔چند قدم آگے چلیں تو سبزی منڈی واقعہ ہے جہاں خریداروں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ یہ روڈ بیس برس پہلے اتنا آباد نہیں تھا جتنا اب ہے۔ دوکانیں تو بنی ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ عمارتوں میں بھی خاطر خواں اضافہ ہواہے ،جس کے باعث علاقہ آبادی کے لحاظ سے بھی پھیلتا جارہا ہے۔



سبزی منڈی سے کچھ فاصلہ پر بدین اسٹاپ ہے، یہ بھی عجیب اتفاق ہے کے یہاں سے صوبے کے اکثر شہروں کے لئے گاڑیاں روانہ کی جاتی ہیں مگر اس کا نام بدین اسٹاپ سے مشہور ہے۔ بدقسمتی کہیں کہ یہ اہم سڑک ہمیشہ ٹوٹی ہوئی ملتی ہے۔ 



یہ علاقہ بڑی آبادی پر مشتمل ہے جہاں مختلف رنگ ونسل کے لوگ جن میں پٹھان ،سندھی ،پنجابی ،اور مہاجر کئی سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سے آنے والے لوگ کاروبار بھی کررہے ہیں لیکن جن لوگوں نے اس علاقے کو آباد کیا وقت نے انکا نام و نشان تک مٹادیا۔ 



حمیرا عبدالستار (ایم اے سال اول)، رول نمبر 2k15/MC/18 


Sketchy, more details and insight is needed. Foto also.

  بیس سالوں میں کیا  تبدیل ہوا
 نئے پل سے بدین اسٹاپ تک
حميرا عبدالستار (ايم اي پريويس)، رول نمبر 2k15/MC/18
 وقت کے  ساتھ ساتھ بہت ساری چیزیں تبدیل ہوجاتی ہیں شحروں کے کئی علائقے آباد ہوتی ہیں۔ تو کئی علائے ویراں بھی ہوجاتے ہیں۔ صدیوں سے یہی سلسلہ چلا آرہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج "موئن جو دڑو آباد ہوتا" آج بھی کئی شحروں کے آثار ہم ماضی کا پتہ بتاتے ہیں۔ تو کچھ آباد شہر ہمسے حال کے خوش حال ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ حیدرآباد جسے کبھی نیرون کوٹ بھی کہا جاتا تہا وہ آج  ہواوں کے شہر کے طور پے بھی پہچانا جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر میں بھی بہت خوب ترقی کی ہے۔ بہت سارے علائقے جو کبھی جنگل کے طور پر پہچانے جاتے تھے وہ آج شہر کے بازاروں میں تبدیل ہو چکہ ہیں۔ ہم جس علائقے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ علائقہ نئے پل سے بدین اسٹاپ تک آباد ہے وقت کے ساتھ ساتھ اس علائقے نے بھی اہم تبدیلیاں پائیں ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس علائقےمیں گہر جو آباد ہوئے لیکن اس علائقے نے بیس برس میں جو تبدیلیاں آئیں  میں اس پر بات کرنا چاہتی ہوں دیکھا جائے تو قدرتی وسیلوں سے مالا مال صوبہ سندھ پاکستان کے لوگوں کے  محنت سے بنا ہوا ہے۔  جہاں بنگال سے آئے ہوئے لوگوں نے کراچی کو اپنا ٹھکانا بنا لیا اس طرح کو ئٹہ اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگوں نے حیدرآباد کی نئہ پل کو اپنا ٹھکانا بنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقہ کاروباری مرکز بن گیا۔ پٹھانوں نے جوتوں کی دوکانے بنائیں یہ علاقہ جوتہ مارکیٹ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ پہلیے یہاں چند دوکانیں تہیں لیکن 20 برس میں آبادی بھی بڑھتی گئی جن لوگوں نے یہ علاقہ آباد کیا تھا وہ لوگ کب کے مٹی اوڑھ کر سوچکے۔ اب جو نئی نسل آئی ہے اُسے تاریخ کا کوئی علم ہی نہیں اور یہ علاقہ اپنی تاریخ کو فراموش کرتا جارہا ہے۔
نئے پل والے علائقے سے آج بھی ریل کا گزر ہوتا ہے۔ بیس سالوں میں آج تک ریل نے اپنی پٹوالی تبدیل نہیں کی اور آج بھی ریلوے اسٹیشن تک جانے کے لیے لوگ اسی علاقے سے گذرتے ہیں۔ اس علاقے سے تھوڑا آگے سبزی منڈی واقعہ ہے بیس برس میں یہ سبزی منڈی بھی بڑھتی ہوئی بدین روڈ تک آپہچی ہے۔ یہ روڈ بیس برس پہلے اتنا آباد نہیں تھا جتنا اب ہے۔ دکانے تو بنی ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ عمارتوں کا ھجوم  بھی کہڑا ہو گیا ہے۔ جسکے باعث علائقہ آبادی کے لحاظ سے پھیلتا جارہا ہے۔ اس کے  تھوڑا آگے بدین اسٹاپ قائم ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کے اس اسٹاپ کا نام بدین اسٹاپ سے لیکن صوبے کے اکثر علائقے/ شہروں کے لیے یہاں سے گاڑیاں مل جاتی ہیں پھر بھی لٌوگ اسے کھتے ہیں بدین اسٹاپ۔ یہ علائقہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ آبادی کے لحاظ سے بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ سارا علائقہ بڑی آبادی پے مشتمل ہے اس آبادی میں پٹھان بھی رہتے ہیں تو سندھی بھی اور کئی سالوں سے مہاجر بھی رہائش پذیر ہیں۔ اور یہاں کوئٹہ سے آنے والے لوگ کاروبار بھی کررہے ہیں لیکن ان لوگوں نے اس علائقہ کو آباد کیا تھا وقت نے انکا نام و نشان تک متا دیا ہے۔ پھر بھی یہ علائقہ آباد ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔
                     

No comments:

Post a Comment