Friday, September 11, 2015

فرحت اللہ سعیدی

 Please withhold. topic not approved/ discussed properly
Profile by Humeera Sattar
Roll No: 2K15/MMC/18
فرحت اللہ سعیدی
ہوائوں کے حوالے سے جانے والے شہر حیدرآباد میں جنم لینے والا فرحت اللہ خان جسے اب لوگ فرحت سعیدی کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ ایک میٹر ریڈر سے بڑا مصنف بن جائے گا یہ کون کب جانتا تھا۔  ادب سے لگن تو شروع سے تھی۔ جب  ضیا   کا دور تھا اس نے اسی زمانے میں ضیا الحق پہ نظم رکھی، جو اس کی پہلی تخلیق تھی۔ اور  اسی طرح شاعری کے میدان میں آگئے قدرت اللہ خان کے گھر میں جنم لینے والے فرحت سعیدی نے علامہ اقبال ڈگری کالیج لطیف سے انٹر تک  تعلیم حاصل کی۔ اور اس کے بعد سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخل ہوئے۔ ادب سے دلچسپی تو شروع سے ہی تھی۔ لیکن پیٹ گذر کی خاطر اس نے  واپڈا میں میٹر  ریڈر کی نوکری کرنا شروع کی۔ وہ  نوکری بھی کیا کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ پڑھائی بھی کر رہے تھے۔ ایم ای اردو میں کی تو اس میں بھی پوزیشن ہولڈر رہے۔
شعبہ اردو میں پڑھتے ہوئے جہان اس نے اساتذہ سے سیکھا وہاں اس نے شاعری کے علم عروض کی تعلیم بھی انور بریلوی سے حاصل کی۔ شاعری میں ان کے استاد تو محمد سعیدی تھے۔ جنہیں وہ اپنی شاعری دکھایا کرتے تھے۔ اور اس سے ہی اصلاح کرایا کرتے تھے۔  انہوں نے شاعری کو ہی اپنے اظہار کا ذریعا بنایا، محنت اور لگن سے پڑھائی کی۔ اور جب اسے لکچرر شپ کی نوکری ملی تو اس نے واپڈا کی ملازمت کو خیرآباد کھہ دیا۔
1987ع میں باقائدہ رکھنے کی شروعات کرنے والے فرحت اللہ سعیدی کی شاعری مختلف کتابوں کا حصہ بنتی رہی۔ بڑے عرصے تک قلم اور قرطاس کا  رشتہ جڑا رہا۔ لیکن پھر انہوں نے شاعری سے منہ موڑلیا۔ شاعروں سے دل کٹ گیا تو گمنام ہوگئے۔ اور پھروں مذہب کی طرف راغب ہوئے۔ عشق حقیقی کی جستجو جاری ہوئی تو مذہبی کتابوں سے دل لگالیا۔ لیکن شاعری کا جو شوق تھا وہ کہاں ختم ہونے والا تھا۔ اور اب وہ پھر سے شاعری کر رہے ہیں۔ مشاعروں کی طرف لوٹ آئے ہیں۔
فرحت اللہ سعید نے دو شادیاں کی پھلی بیوی نباہ نہ ہو  سکا تو انہیں طلاق دے دی۔ اور پھر دوسری شادی کی،  لیکن اسے اولاد نہ ہو سکی اس نے اولاد کی کمی کو دور کرنے کیلئے بھائی کی بیٹی گود لی۔ جسے وہ بڑے پیار سے پالتے رہے ہیں بیٹی کو باپ کی شفقت اور محبت تو دی ہے مگر وہ انہیں اپنا نام نہیں دیتے۔ بیٹی کے کاغذات پہ آج بھی اس کے بھائی کا نام لکھا ہوا ہے۔
فرحت سعیدی مذہب کی طرف راغب ہوئے تو انہوں نے مذہبی مضامیں بھی لکھنا شروع کیے۔  اور نثر لکھنا شروع کیا۔ وسی بھی دیکھا جائے تو شاعر لوگ نثر میں کمال کیا کرتے ہیں۔ اور یہاں وہ بھی کمال کا نثر لکھتے رہے ہیں۔ اس نے تنقید، تحقیق اور مذہب پہ بہت سارے مضامیں لکھے ہیں۔ حاجی عدیل اور پروفیسر سلیم بیگ نے کہکشاں کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی۔ اس میں بھی فرحت سعیدی کا تذکرہ تھا۔ اور اس کی شاعری بھی دی گئی تھی۔

جب بھی کسی کی شاعری دل کی صدا نبی ہی تو اس پہ فرحت سعیدی داد ضرور دیتے ہیں۔ انور شعور اس کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ جس کی شاعری وہ اکثر پڑھا کرتے ہیں۔ اس سی زندگی تعلیم و تربیت میں گذری ہے۔ گذشتہ 16 سال سی وہ علامہ اقبال ڈگری کالیج لطیف آباد میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ محنت اور لگن سے اس نے جہاں شعر و شاعری میں اپنا مقام بنایا ہے۔ وہاں وہ تعلیمی میدان میں بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ اس کی شاعری اور مضامین مختلف اخباروں اور رسالوں میں شایع ہوتے ہیں۔ جنہیں پسند بھی کیا جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment